۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مختار کو برا نہ کہو انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ان سے انتقام لیا۔ سخت حالات میں ہماری مدد اور بیوا خواتین کی کفالت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : "الْمُؤْمِنُ كَیّس" مومن عقلمند اور ہوشیار ہوتا ہے۔ (بحارالانوار، ج۶۴، ص۳۰۷) 
یعنی مومن با بصیرت ہوتا ہے، حالات پر اسکی نظر ہوتی ہے اور اسمیں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سمجھ سکے کب کیا کرنا ہے اور کب کس چیز سے پرہیز کرنا ہے۔ قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھیکہ جناب داود کی حکمت میں واضح طور سے بیان ہوا ہے کہ "على العاقِلِ أن يَكونَ عارِفا بِزَمانِهِ ، مُقبِلاً عَلى شَأنِهِ ، حافِظا لِلِسانِهِ
" یعنی عقلمند انسان پر لازم ھیکہ زمانے اور  بدلتےحالات کو پہچانے، اپنے امور میں سرگرم رہے اور اپنی زبان کو محفوظ رکھے۔ (الكافي: ٢ / ١١٦ / ٢٠) اس نورانی حدیث میں عقلمند کی تین علامت بیان ہوی ہے۔ 
الف: زمانے کی شناخت یعنی بصیرت
ب: اپنے امور میں سرگرمی یعنی کاہلی اور غیر مربوط امور سے پرہیز  
ج: زبان پر لگام،
 اگر ہم غور کریں تو اس حکمت کی ترتیب میں بھی حکمت پوشیدہ ہے پہلے انسان میں بصیرت پیدا ہو، اس کے بعد اس پر عمل ہو اور جب انسان ان دو منزلوں کو طے کر لیتا ہے تب تیسری منزل آتی ہے وہ ہے زبان پر کنٹرول اور اسکی حفاظت، اور جب تک پہلی دو منزلیں بحسن و خوبی طے نہیں ہوں گی تب تک تیسری منزل میں کامیابی ممکن نہیں۔ آج جو ہمارے سماج میں وا ویلا ہے وہ انہیں خصوصیات کے فقدان کے سبب ہے۔ اور جب انسان عقل و کیاست کی منزل کمال پر پہنچ جاتا ہے تو شاہ کلام امیر بیان حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ "حَبَّذَا نَوْمُ الْأَكْیاسِ وَ إِفْطَارُهُم" عقلمند اور ہوشیار کی نیند اور افطار (کھانا) بہتر ہے۔ (نهج‌البلاغه، حکمت ۱۴۵) 
یعنی عقل و معرفت  اور فہم و فراست کے بغیر راتوں میں جگ کر عبادت اور دن کے (مستحبی) روزہ مفید نہیں بلکہ اگر عقل و ہوشیاری کے ساتھ رات میں سو جاے یا دن میں کھانا کھاے تو یہ زیادہ مناسب ہے۔ 
ویسے تو ہر انسان اپنے کو عقلمند اور ہوشیار سمجھتا ہے لیکن یہ کمال نہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اللہ نے جن معصوم ذوات کو مکمل علم و عقل عطا کر کے بھیجا ہے اگر وہ کسی کی عقل کی گواہی دیں تو وہ انسان عقلمند بھی ہے اور حدیث نبوی کی روشنی میں مومن بھی ہے۔ حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے صحابی جناب اصبغ بن نباتہ سے منقول ہے کہ جناب مختار ثقفی کا بچپن تھا تو ایک دن حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے انکو دیکھا تو اپنی آغوش بٹھایا اور فرمایا ھذا کیس۔ کیس یعنی یہ بچہ عقلمند اور ہوشیار ہے۔(کشى، الرجال ، ص 127، تهران، 1348ش؛ بحارالانوار، ج 45، ص 344.) اس حدیث شریف سے جہاں جناب مختار ثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ کی عقل و ہوشیاری ثابت ہوتی ہے وہیں نص نبوی کی روشنی میں آپ کے ایمان کو بھی ثبات نصیب ہوتا ہے۔ اور احترام مومن کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں "الْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنَ الْكَعْبَةِ؛" مومن کی حرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے عظیم ہے۔ (خصال صدوق، ج1، ص27) 
یعنی جن لوگوں نے خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی چاہے وہ ابرہا ہو یا یزید و عبدالملک وغیرہ سب پر آخرت میں اللہ کی جانب سے شدید عذاب ہے اور اس دنیا میں بھی وہ ذلیل و رسوا ہوے۔ تو اسی طرح اگر کوی کسی مومن کی توہین کرے گا تو دنیا و آخرت کا خسارہ اس کا مقدر ہو گا۔ 
حضرت مختار ثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ ہجرت کے پہلے برس متولد ہوے اور آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابی ابو عبیدہ کے فرزند تھے۔ اہلبیت علیھم السلام سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی اور انتقام آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ چونکہ آپ نے مظلوم کربلا سرکار سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو قتل کیا اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ولایت و اطاعت میں اپنی پاکیزہ زندگی بسر کی ۔تاہم جہاں کتابوں میں آپ کی تعریف و تمجید کی روایات ہیں وہیں آپ کے خلاف بھی روایتیں موجود ہیں۔ ظاہر ہے جن کے بزرگوں کو آپ نے فی النار فرمایا ہو ان سے آپ کی خیر و منقبت کی توقع عبث ہے۔ اسی لئے ہمارے بزرگ علماء  جیسے ماہر علم رجال جناب محمد بن عمر بن عبدالعزیز کَشّی نے "رجال" میں، علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں، سید جمال الدین ابن طاووس نے اپنی کتاب "رجال" میں، علامہ حلی نے "خلاصہ" میں، مقدس اردبیلی نے "حدیقہ الشیعہ" میں، شہید ثالث قاضی نوراللہ شوشتری نے "مجالس المومنین" میں، شیخ ابو علی نے "منتھی المقال" میں، شیخ عبداللہ مامقانی نے "تنقیح المقال" میں، استاد الفقھاء آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوی نے "معجم رجال الحدیث" میں، علامہ شوشتری نے "قاموس الرجال" میں اور علامہ امینی نے "الغدیر" میں جناب مختار کا دفاع اور آپ کی فضیلت بیان کی ہے، نیز ان روایتوں کو تقیہ  یا ضعیف قرار دیا ہے جنمیں آپ کی مذمت و منقصت کا بیان ہے۔ 
جناب مختار ائمہ معصومین علیھم السلام کی نظر میں 
۱: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب تک مختار نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کا سر نہیں بھیجا بنی ہاشم کی کسی خاتون نے سر میں کنگھی اور خضاب نہیں لگایا۔ ( بحارالانوار، ج 45، ص 386؛ رجال کشى، ص 127) آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوی رح نے اس روایت کو صحیح بتایا ہے۔ (خویی، ابوالقاسم، معجم الرجال، ج 18، ص 94، قم، 1410ق.)
۲: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: مختار کو برا نہ کہو انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ان سے انتقام لیا۔ سخت حالات میں ہماری مدد اور بیوا خواتین کی کفالت کی۔ ( بحارالانوار، ج 45، ص343؛ رجال الکشى، ص 125.) 
۳: روایت میں ہے کہ جب جناب مختار نے عبید اللہ بن زیاد اور عمر سعد کا سر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے سجدہ شکر کیا اور فرمایا "جَزىَ اللهُ المُختارَ خَیراً" خدا مختار کو جزاے خیر دے۔ (رجال الکشى، ص 127.)
وہ تمام روایتیں جو جناب مختار کے خلاف پیش کی جاتی ہیں اور انکے ذریعہ آپ کی شخصیت کو مشکوک اور آپ کی توہین کی جاتی ہے ان کو بزرگ محقق علماء نے جعلی بتایا ہے بلکہ علامہ مجلسی رح نے فرمایا : مختار فضائل اہلبیت کو بیان کرتے اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام و حسنین کریمین علیھماالسلام کے صفات حسنہ کو نشر فرماتے، آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امامت و حکومت کا حق فقط اہلبیت علیھم السلام کو ہے۔ اور حکومتوں کے ذریعہ جو مصیبتیں اہلبیت علیھم السلام پر پڑی ان سے آپ رنجیدہ و غمزدہ تھے۔ (بحارالانوار، ج 45، ص 352) 
علامہ باقر شریف القرشی رح نے لکھا: مختار، شیعوں کی ایک برجستہ شخصیت اور آل رسول ص  کی شمشیروں میں سے تھے۔ ان کا دل اہلبیت علیھم السلام پر جو مظالم دھاے گئے ہیں اس کے لئے سب سے زیادہ بے چین رہتا، وہ اپنے جہاد میں کوشاں رہتے کہ کیسے حکومت حاصل کر لیں، لیکن یہ تمنا اپنے لئے نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعہ اہلبیت علیھم السلام کے قاتلوں سے انتقام کے خواہاں تھے۔ (حیاہ الامام الحسین علیہ السلام، باقر شریف القرشی، ص 454)
یہ نکتہ سب کے لئے قابل غور ہے کہ اگرچہ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارے مولا و آقا حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہم سے راضی و خوشنود ہوں، ہمارے اعمال مولا کی مسرت اور مسکراہٹ کا سبب ہوں نہ کہ غم و گریہ کا۔ لیکن کویی دعوی کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اعمال سے آقا مسرور ہیں لیکن یہ امتیاز جناب مختار ثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ کو حاصل ہے کہ آپ نوحہ و گریہ میں مصروف امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے لبوں پر مسکراہٹ کا سبب بنے اور بنی ہاشم کی خواتین کی سوگواری کو خوشی میں بدل دیا۔ اہلبیت علیھم السلام کی محبت میں آپ آل مروان، آل زبیر اور منافقین کوفہ سے بر سر پیکار ہوے اور آخر 14 رمضان المبارک 67 ہجری کو مصعب بن زبیر کے ہاتھوں شہید ہوے۔ سفیر حسینی حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی قبر مطہر کے نزدیک دفن ہوے جو آج محبان اہلبیت علیھم السلام کی زیارت گاہ ہے۔

تحریر: سید علی ھاشم عابدی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .